کالم

                                        راولپنڈی اسلام آباد کی ٹریفک کا بڑھتا ہوا روگ

تحریر : ڈاکٹر محمد نعیم اختر
میرا روزانہ راولپنڈی اور اسلام آباد کی سڑکوں سے گزر ہوتا ہے۔ صبح اسلام آباد میں داخل ہوتی ہوئی ٹریفک بلاک ہوتی ہے اور شام کو راولپنڈی میں داخل ہوتی ہوئی ٹریفک بلاک ہوتی ہے۔ جیسے جیسے وقت گزر رہا ہے گاڑیوں کی تعداد میںاضافہ ہو رہا ہے۔ مستقبل کے منظر نامے کے بارے میں سوچ کر دل خون کے آنسو روتا ہے۔
دنیا کے ترقی یافتہ اور ترقی پزیر ممالک کے شہروںکامناسب انداز میںاس کے حدوداربع کا تعین کیا جاتا ہے۔ کوئی بھی نیا شہر قائم کرنے سے پہلے باقاعدہ انداز میںمنصوبہ بندی کی جاتی ہے۔ شہر کی تمام ضروریات کا تعین کیا جاتاہے۔ یہ تمام منصوبہ بندی صرف چند سالوںکو مدنظر رکھ کر نہیں کی جاتی بلکہ اس شہر کی آیندہ صدیوں کی ضروریات کو مدنظر رکھا جاتا ہے۔اس تمام منصوبہ بندی کا مقصد اس شہر کے باسیوں کو اعلی معیار کی سہولیات میسر کرنا ہوتا ہے۔
ہمارے ہاں اس قسم کی منصوبہ بندی کا فقدان ہے۔اگر ہم راولپنڈی کی بڑی شاہراہوںکا جائزہ لیں تو پشاور روڈ، مری روڈ، راول روڈ اور ائرپورٹ روڈ اہم شاہراہیں شمار ہوتی ہیں۔ بیشتر شاہراہیںدو رویا ہیں۔ مستقبل کی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوے ضرورت تو اس بات کی تھی کہ نئی شاہراہیں قائم کی جاتیں یا موجودہ شاہراہوں کو کشادہ کیا جاتا، لیکن ایسا کچھ نہیں کیا گیا۔ راولپنڈی اسلام آباد میٹرو پراجیکٹ سے بلاشبہ شہر کے باسیوں کو ایک اچھی سفری سہولت میسر ہو گئی ہے لیکن کیا اس سے شہریوں کی سفری مشکلات کا ازالہ ہوگیا ہے؟جواب نفی میں ملے گا۔ خصوصاً اگر سوچا جائے تو یہ بات بھی غور طلب ہے کہ میٹرو بس کا گزر صرف مری روڈ سے ہوتا ہے۔ جب کہ راولپنڈی کی کل آبادی کا چند فیصد ہی مری روڈکے آس پاس رہتا ہے۔
 Islamabad Expressway
 اب مری روڈکو مزید کشادہ کرنے کی گنجایش بھی ختم ہوگئی ہے
آج سے چند سال قبل پرویز مشرف کے دور میں مری روڈ سے ٹریفک کے دبائو کو کم کرنے کے لیے نالہ لئی ایکسپریس وے کا پراجیکٹ تجویز کیا گیا لیکن وہ تجویز کی حد تک ہی محدود رہ گیا۔ بلاشبہ یہ ایک اچھی تجویز تھی۔ جس سے مری روڈ پر ٹریفک کا زور کم ہوتا۔اسی طرح یہ تجویز بھی سننے کو ملی کہ صدر سے فیض آباد تک مری روڈ کے اوپر ایک پل نما شاہراہ قائم کر دی جائے جس سے ان تمام لوگوں کو فائدہ پہنچے گا جو روزانہ راولپنڈی سے اسلام آباد کی طرف سفر کرتے ہیں۔
بلاشبہ یہ ایک اچھی تجویز تھی لیکن اس تجویز کو قابل عمل نہ سمجھا گیا۔ راولپنڈی اسلام آباد میٹروپراجیکٹ کی تکمیل کے بعد اب مری روڈکو مزید کشادہ کرنے کی گنجایش بھی ختم ہوگئی ہے۔مری روڈ پر ٹریفک کے بڑھتے ہوئے رش کو کم کرنے کیلئے دیگر شاہراہوں کو کشادہ کرنے کی ضرورت ہے کیوں کہ جیسے جیسے وقت گزر رہا ہے شاہراہوں پر ٹریفک بڑھتی چلی جارہی ہے اور چندہی سالوں میں ٹریفک کا مسئلہ گھمبیر شکل اختیار کر جائے گا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ارباب اختیار اس مسئلے کا حل نکا لیں۔

راولپنڈی اور اسلام آباد کاشائد پاکستان کے ان بدقسمت شہروں میں شمار ہوتے ہیں جو بائی پاس سے محروم ہیں۔ بھاری ٹریفک دونوں شہروں کے بیچوں بیچ سے گزر رہی ہوتی ہے جس سے شہریوں کوبہت سارے مسائل کا سامنا ہے۔ شہریوں کو آئے روز حادثات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ضرورت اس امر کی متقاضی ہے کہ جلد از جلد ان شہروں کے لئے ایک عدد بائی پاس تجویز کیا جائے جس سے بھی شہروں کے ٹریفک کے مسائل میں کمی ہوگی۔ حکومت کو چاہیے کہ لاہور کے علاوہ بھی پنجاب کے بڑے شہروں کے بڑھتے ہوئے شہری مسائل پر بھی توجہ دی جائے تا کہ وہاں کے شہریوں کے مسائل بھی حل ہو سکیں۔

تحریر : ڈاکٹر محمد نعیم اختر

          سانحہ چارسدہ اور خوارج


پاکستان ابھی سانحہ پشاور کے زخموں کو نہ بھولا تھا کہ پاکستان کے سفاک دشمنوں نے باچا خان یونیورسٹ

 میں حملہ کرکے ایک اور زخم دے دیا۔صبح کے وقت سفاک دھشتگردوں نے یونیورسٹی میں گھس کر طلبہ اور اساتذہ کو شہید کردیا۔آج ہمارا دشمن ہمیں ترقی کی راہ پر دیکھ کر تکفیری گروہ کو استعمال کر کیہمارے ملک میں تخریبی کاروائیاں کروارہاے۔
دوسری طرف پاک فوج کے جوان ان تخریب کاروں کے خاتمے کیلئے کوشاں ہے۔ان سفاک دھشتگردوں کے ہاتھوں پاکستان کی عوام محفوظ نہیں،اس وطن کے جری جواں محفوظ نہیں،ثقافت محفوظ نہیں،دینی مدارس محفوظ نہیں،تعلیمی ادارے محفوظ نہیں،اہم شاہراہیں محفوظ نہیں،جن کے ہاتھوں مسلمانوں کی منڈیاں کیا مساجد بھی محفوظ نہیں۔ان ظالموں کے خاتمے کیلئے آپریشن ضرب عضب آخری دھشتگرد تک جاری رہے گا۔انشا ء اللہ
باچا خان میں جو کچھ بھی ہوا معصوم طلبا کی جانیں لی گئیں ،اساتذہ کو شہید کیا گیا سب کچھ ہمارے دل پر چوٹ بن کر گرا۔آج ہمیں اپنے ازلی دشمن کو پہچاننا ھوگا۔جو اسلام کو بدنا م کررہے ہین ،جو شریعت یا شہادت کے کھوکھلے نعرے لگا رہے ہیں ،جو جہاد نہیں بلکہ فساد پھیلا رہے ہیں،جو مسلمانوں پر کفر کے فتوے لگا رہے ہیں،جو پاکستان میں تعصب ،فرقہ واریت ،انتہا پسندی اور دھشتگردی پھیلا رہے ہیں۔ان کی بھی داڑھیاں ہیں ،یہ بھی احکام اسلام پر پورا اترتے ہیں ،ان کے بھی اعمال اچھے ہیں ،یہ بھی قران پڑ ھتے ہیں لیکن پھر بھی ان کا ٹارگٹ کافر نہیں مسلمان کیوں۔۔۔؟ آیئے کچھ راہنمائی دین اسلام سے بھی لیتے ہیں۔
حبیب کبریا علیہ السلام نے فرما یا۔یہ نمازیں پڑہیں گے تم ان کی نمازوں کے آگ ے اپنی نمازوں کو حقیر جانو گے،ان کی داڑھیاں گھنی ہوں گی،یہ کم عمر اور نا پختہ ذہن کے مالک ہوں گے،ان کی شلواریں نصف پنڈلی سے اوپر ہوں گی،یہ بھی قران پڑہیں گے لیکن ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا،یہ مسلمانوں پر وہ فرامین سنا کر فتوے لگائیں گے جو فرامیں یہود و نصارا کے لئے نازل ہوئے،یہ مسلمانوں کو شہید کریں گے اور بت پرستوں کو معاف کریں گے،یہ جہنم کے کتے ہوں گے ،یہ بدترین خوارج ہوں گے ،یہ اس طرح دیں سے نکلیں گے جس ظرح تیر شکار سے نکلتا ہے۔
آج مظفر نگر میں مسلمانوں پر ظلم ہوتا ہے تو خوارج ھندوؤں کو نہیں بلکہ پشاور کے معصوموں پر ہتھیار اٹھاتے ہیں۔جب کشمیر میں ہندو مسلمان بہنوں کی عصمت دری کرتے ہیں تو یہ ان پر نہیں بلکہ واہگہ بارڈر پر پریڈ دیکھنے آئے مسلمانوں پر خون کی خولی کھیلتے ہیں،جب برما میں بدھ مت کا پجاری مسلمانوں پر ظلم وستم ڈھاتا ہے تو یہ خوارج بدھوؤں پر نہیں بلکہ باچا خان ہونیورسٹی پر دھاوا بولتے ہیں۔
آخر پر میں نام نہاد سیکولر طبقے سے سوال کرتا ہوں جب فرانس یا پیرس میں حملہ ہوتا ہے تو آپ کی ڈی پی پر فرانس کے جھنڈے ہوتے ہیں ،موم بتی مافیا ان کی یاد میں موم بتیاں روشن کرتی ہے۔لیکن آج باچا خان کے شہداء کے لیے ایک ڈی پی بھی نہ لگا سکے ،ان کو بھول ہی گئے وہ بھی تو پاکستان کا مستقبل تھے نہ۔۔بس میرا پرودگار اس دھرتی کو سفاک دشمنوں سے محفوظ رکھے اور شہدائے باچا خان کی قربانیوں کو قبول فرمائے۔آمین
.خنیس الرحمان
اللّہ کی عظیم نعمت پاکستان


پاکستان بہت قربانیوں کے بعد حاصل کیا گیا.پاکستان ہمارے بزرگوں کی ان عظیم شہادتوں کا نتیجہ ہے جو ہمارے بزرگوں نے اس وقت اپنے مال،جان اور عزتوں کی قربانی دے کر حاصل کیا.
اسی طرح پاکستان کو ابهی اٹهارہ سال ہی گزرے تهے کہ بزدل دشمن نے رات کی تاریکی میں حملہ کر دیا.دشمن نے یہ سمجه کر حملہ کیا کہ ہم اس کو دنیا سے مٹا دیں گیں.لیکن یہ ملک جو کلمہ طیبہ کی بنیاد پر بنا،مٹنے کے لیے تهوڑا ہی بنا تها.پهر دنیا نے دیکها کہ اس قوم کے مٹهی بهر جوانوں نے،جن کے پاس اسلحہ نا ہونے کے برابر تها.اس مغرور دشمن کو شکست سے دوچار کیا.اس بات سے یہ ثابت ہو گیا کہ جنگ ہتهیاروں سے نہیں بلکہ جذبوں اور قوت ایمانی سے لڑی جاتی ہے.
جب دشمن نے یہ دیکها کہ اس قوم کو لڑ کر شکست نہیں دی جا سکتی تو اس نے صوبائیت اور لسانیت کو ہوا دی.ایک صوبے کو دوسرے صوبوں کے خلاف اکسایا.بلوچ کو پنجابی کے خلاف اور بنگالی کو دوسری زبان بولنے والے کے خلاف اکسایا.مفادات کی جنگ چهیڑ دی گئی.پهر دنیا نے دیکها کہ پاکستان دو لخت ہو گیا.
اس کے بعد بهی اس دشمن کو سکون نہ ملا تو اس نے ایٹمی ہتهیاروں سے ڈرانا دهمکانا شروع کر دیا.لیکن پهر اللہ تعالی نے پاکستان کو بهی ایٹمی طاقت سے نوازا.1998 میں پاکستان ایٹمی طاقت بنا اور آج 2016 میں ہم دنیا کے جدید اور خطرناک ترین اسلحے سے لیس ہیں.
سوال یہ ہے کہ یہ سب کرم نوازیاں اللہ تعالی پاکستان پر کیوں کر رہا ہے؟یقینا اللہ تعالی یہ سب جو ہمیں دے رہا ہے کسی مقصد کے لیے دے رہا ہے.اللہ نے یہ طاقت مکہ اور مدینہ کی حفاظت کرنے کے لیے دی.اللہ نے یہ طاقت کشمیریوں اور فلسطینیوں کی امیدوں پر پورا اترنے کے لیے دی ہے.اللہ تعالی نے آج اپنے گهر کی حفاظت کے لیے پاکستان کو چنا ہے.آج مظلوم مسلمانوں کی مدد کے لیے چنا تو صرف پاکستان کو چنا.آج ایک طرف ساری کفریہ طاقتیں ہیں جن کا لیڈر اسرائیل ہے.دوسری طرف امت مسلمہ ہے جن کا لیڈر پاکستان ہے.پاکستان ان کفریہ طاقتوں کو کچلنے کی صلاحیت رکهتا ہے.اس کی تازہ ترین مثال نیٹو کا اتحاد ہے جس کو پاکستان نے توڑ کے رکه دیا.آج دیکها جائے تو جو اپریشن ضرب عضب دہشتگردوں کے خلاف جاری ہے.اللہ تعالی کے فضل سے ہمیں کامیابیاں مل رہی ہیں.
ان سب آزمائشوں کے بعد اب پاکستان استحکام کی طرف جا رہا ہے.ہماری بہادر افواج نے کامیابیوں کا سفر جاری رکها ہوا ہے.پاکستان میں امن لوٹ رہا ہے.ایسے وقت میں ہمیں چاہیئے کہ ہم اپنی حکومت اور افوج پاکستان کا بهرپور ساته دیں.مایوسیاں چهوڑ کر پاکستان کو امن کا گہوارہ بنانے میں اپنا کردار ادا کریں.
کسی بهی ملک کا مستقبل اس کی نوجوان نسل سے وابستہ ہوتا ہے.اس لیے پاکستان کی نوجوان کو چاہیئے کہ جو بهی کام کریں پاکستان کے عزت اور وقار کو سامنے رکه کر کریں.دوسرے ممالک جا کر روزگار تلاش کرنے سے بہتر ہے کہ ہم اپنے ملک کو ایسا بنائے کہ دوسرے ممالک سے لوگ یہاں روزگار لینے آئیں.اس طرح آپ پاکستان،اسلام اور قوم کی خدمت کا فریظہ بهی سر انجام دیں گیں اور آنے والی نسل کے لیے ایک روشن مستقبل بهی دے سکیں گیں.اسی وجہ سے آخرت میں بهی ہماری کامیابی ہو سکتی ہے.
فیصل فرید جنجوعہ
راولپنڈی


محمد بن سلمان کا دورہ پاکستان اور چین…تحریر: حبیب اللہ سلفی



سعودی عرب کے نائب ولی عہد اور وزیر دفاع شہزادہ محمد بن سلمان نے وزیر اعظم محمد نواز شریف سے ملاقات کی اور دو طرفہ دفاعی شعبے میں تعاون پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ وزیر اعظم ہائوس میں ہونے والی ملاقات کے حوالہ سے کہا گیا ہے کہ سعودی عرب نے سی پیک منصوبہ میں شمولیت کی خواہش کا اظہار اور چاہ بہار کے مقابلہ میں گوادر کیلئے سرمایہ کاری پرآمادگی ظاہر کی ہے۔ اسی طرح داعش جیسی دہشت گردتنظیم کیخلاف اور مختلف شعبوں میں باہمی تعاون بڑھانے پر بھی اتفاق رائے کا اظہارکیا گیا۔ملاقات میں پاک سعودی عرب تعلقات، مشرق وسطیٰ کی صورت حال اور باہمی دلچسپی کے امور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔سعودی نائب ولی عہد کی پاکستان آمد پران کے اعزاز میں عشائیہ بھی دیا گیا جس میں وفاقی وزراء اور فوج کے سربراہان موجود تھے۔
سعودی ولی عہد نے یقین دہانی کرائی کہ سعودی عرب ہر مشکل وقت میں پاکستان کے ساتھ کھڑا ہو گاجبکہ وزیر اعظم نواز شریف نے کہاکہ پاکستان اور سعودی عرب میں گہرے دوستانہ تعلقات ہیں۔ دونوں ممالک کی دوستی ہر آزمائش پر پوری اتری ہے۔ سعودی عرب کی سلامتی کو کوئی خطرہ لاحق ہوا تو پاکستان بھی اس کے ساتھ ہو گا۔سعودی نائب وزیر دفاع نے پاکستانی آرمی چیف جنرل راحیل شریف سے بھی ملاقات کر کے مشرق وسطیٰ کی صورتحال اور دو طرفہ دفاعی امور پر تبادلہ خیال کیا۔ شہزادہ محمد بن سلمان دورہ چین کے بعد جاپان جائیں گے اور اس کے بعد دوبارہ چین آکر چار اور پانچ ستمبر تک جی ایٹ اجلاس میں شریک ہوں گے۔

سعودی عرب کے نائب ولی عہد اور وزیر دفاع شہزادہ محمد بن سلمان ان حالات میں پاکستان کے دورہ پر پہنچے ہیں کہ جب وطن عزیز پاکستان کیخلاف سازشیں عروج پر ہیں۔ افغانستان کو بیس بنا کر پاکستان کو میدان جنگ بنانے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔بلوچستان، سندھ، خیبر پی کے اور ملک کے دیگر علاقوںمیں تخریب کاری و دہشت گردی کی آگ بھڑکانے کیلئے بے پناہ وسائل خرچ کئے جارہے ہیں۔ پاک چین اقتصادی راہداری منصوبہ کیخلاف بھی سازشیں عروج پر ہیں۔ اسی طرح مقبوضہ کشمیر میں ظلم و ستم نے بھی ہلاکو اور چنگیز خاں کے مظالم کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ مشرق وسطیٰ خاص طور پر شام میں صورتحال بہت خراب ہے۔ ایران کی امریکہ سے قربت دن بدن بڑھتی جارہی ہے۔ایرانی بندرگاہ چاہ بہار کی تعمیر میں بھارت پیش پیش ہے۔ اسی طرح بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کی ایران سے پاکستان آمد نے بھی حالات نے ایک نیا رخ اختیار کیا ہے۔ ان حالات میں سعودی وزیر دفاع شہزادہ محمد بن سلمان کا دورہ اور پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت سے ملاقاتیں بہت اہمیت کی حامل ہیں۔
خاص طور پر سعودی عرب کا سی پیک منصوبہ میں شمولیت کی خواہش اور چاہ بہار بندرگاہ کے مقابلہ میں گوادر پر سرمایہ کاری کو انتہائی خوش آئند قرار دیا جارہا ہے۔ گذشتہ برس چینی صدر شی چن پنگ کے دورہ پاکستان کے دوران جب سے 51معاہدوں اور مفاہمت کی یادداشت پر دستخط ہوئے ہیں’ بھارت کے پیٹ میں اس وقت سے سخت مروڑ اٹھ رہے ہیں۔ ان معاہدوں میں سے تیس سے زائد منصوبے پاک چین اقتصادی راہداری سے متعلق ہیں اسلئے وہ دہشت گردی و تخریب کاری کے ذریعہ مسلسل اس منصوبہ کو سبوتاژکرنے کی کوششیں کر رہا ہے۔
سی پیک منصوبہ کو جنوبی ایشیا میں بہت زیادہ اہمیت دی جارہی ہے اور وزیر اعظم نواز شریف کے مطابق اس منصوبہ کو ”گیم چینجر” کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔ چینی علاقے کاشغر سے شروع ہونیوالا یہ تجارتی راستہ پاکستانی بندرگاہ گوادر تک پہنچے گا۔ اس راستے کو بنانے میں چین کی دلچسپی یہ ہے کہ آبنائے ملاکہ جو انڈونیشیا اور ملائشیا کو علیحدہ کرتی ہے اور چین سے لے کر ویت نام ،ہانگ کانگ سے تائیوان اور جنوبی کوریا سے جاپان تک تمام ممالک کا تجارتی راستہ ہے اس پر انحصار کم کر کے ایک چھوٹا تجارتی راستہ بنایاجائے تاکہ دنیا بھر میں چینی مصنوعات کم خرچ اور کم وقت میں پہنچ سکیں۔ آبنائے ملاکہ سے چینی تجارتی سامان کو یورپ اور دیگر منڈیوں تک پہنچنے میں پینتالیس دن لگتے ہیں جبکہ کاشغر تا گوادر اقتصادی راہداری کی تکمیل کے بعد یہ سفر کم ہو کر دس دن کا رہ جائیگا۔پاکستان کو اس راہداری سے یہ فائدہ ہوگا کہ یہ ملک تجارتی سرگرمیوں میں شامل ہو کر معاشی ترقی کر سکے گا اور ترقی پذیر سے ترقی یافتہ ملک تک کا سفر تیزی سے طے ہو گا۔ چین نہ صرف گوادر تا کاشغر اقتصادی راہداری کی تکمیل چاہتا ہے بلکہ بنگلہ دیش اور سری لنکا کے ساتھ مل کرا سی طرح کے سمندری تجارتی راستے بھی کھولنا چاہتا ہے۔
یہ منصوبہ معاشی استحکام کے علاوہ پاکستان کے صوبہ بلوچستان اوردیگر علاقوں میں جاری علیحدگی کی تحریکوں کیلئے بھی زہر قاتل ثابت ہو گا کیونکہ معاشی استحکام آنے سے یہ تحریکیںبہت حد تک خود بخودکمزور ہو جائینگی۔ راہداری منصوبہ سے تمام صوبوں کو فوائد ملیں گے اور اس سے ملک میں امن و خوشحالی آئے گی یہی وجہ ہے کہ اس منصوبہ کے اعلان پر بھارت کے اوسان خطا ہیں اور وہ ہر صورت اسے ناکام دیکھنا چاہتا ہے۔ اسکی پوری کوشش ہے کہ کسی طرح اس مسئلہ کو بھی کالا باغ ڈیم کی طرح متنازعہ بنا دیا جائے۔ انڈیا کی طرف سے راہداری منصوبہ کی مخالفت بھی کوئی حیرت کی بات نہیں ہے۔ مشرقی پاکستان کو دولخت کرنے والے بھارت نے پاکستان کے وجود کو کبھی دل سے تسلیم نہیں کیا اورہر وقت پاکستان کو نقصانات سے دوچار کرنے کی سازشیں کی ہیں۔ اس لئے اب بھی وہ اپنی ان مذموم حرکتوں سے کسی صورت باز نہیں آئیگا۔

اب تو یہ خبریں بھی کھل کر منظر عام پر آچکی ہیں کہ انڈیا نے راہداری منصوبہ ناکام بنانے کیلئے باقاعدہ ایک سیل قائم کیا ہے جس کا کام ہی اس منصوبہ کو ناکامی سے دوچار کرنے کیلئے قتل و خون بہانا ہے۔ اس مقصد کیلئے وہ کروڑوں ڈالر خرچ کر رہا ہے۔ بھارتی قیادت کی طرف سے پاک چین راہداری منصوبہ کی مخالفت عالمی قوانین کی دھجیاں بکھیرنے کے مترادف ہے۔ اگرچہ انڈیا کا اس راہداری منصوبہ سے براہ راست کوئی تعلق نہیں ہے لیکن اسکے باوجود یہ منصوبہ اسے برداشت نہیں ہو رہا۔ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے اس منصوبہ کو نقصان پہنچانے کیلئے اسرائیل سے بھی بہت قربت بڑھائی ہے۔ کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کچلنے اور پاکستانی سرحد پر باڑ لگانے سمیت حساس سینسرز لگانے میں اسرائیل نے بھارت کے ساتھ ہر ممکن تعاون کیا ہے۔یہ بات بھی ریکارڈ پر ہے کہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو تباہی سے دوچار کرنے کیلئے بھی اسرائیلی طیارے سری نگر میں تیار کھڑے تھے کہ پاکستان نے بروقت معلوم ہونے پر اس سازش کو ناکام بنا دیاتھا۔اس وقت ان حالات میں بھی کہ جب پاک چین راہداری منصوبہ سے پورے خطہ میں ترقی کی لہر دوڑتی ہوئی نظر آ رہی ہے۔
بھارت سرکار نے اس کیخلا ف سازشیں تیز کر دی ہیں لیکن میں سمجھتاہوں کہ یہ مذموم منصوبے ان شاء اللہ کامیاب نہیں ہوں گے۔پاکستان اور سعودی عرب کی جانب سے داعش جیسی تنظیم کیخلاف بھی تعاون بڑھانے پر اتفاق رائے کا اظہار کیا گیا ہے۔ اس وقت حقیقی صورتحال یہ ہے کہ پاکستان ، سعودی عرب اور ترکی سمیت مسلم دنیا کے اہم ممالک اندرونی سازشوں کا شکار ہیں اور دشمنان اسلام’ مسلم ملکوں و معاشروں میں امن و امان کی بربادی کیلئے تکفیر اورخارجیت کا فتنہ پروان چڑھانے کیلئے بے پناہ وسائل خرچ کر رہے ہیں۔سعودی عرب میں مساجد وامام بارگاہوںمیں خودکش حملے ہوں، پاکستان میں افواج، عسکری اداروں ، مساجداور پبلک مقامات پر بم دھماکے ہوں یا کسی دوسرے اسلامی ملک میں اس نوع کی دہشت گردی’ سب کے پیچھے دشمن قوتوںکاہاتھ کارفرما نظر آتا ہے۔ مغربی ممالک خود ہی دہشت گرد تنظیموں کی سرپرستی کرتے ہیں۔ مسلم ملکوں میں افواج و دفاعی اداروں پر حملے کروائے جاتے ہیں’ بے گناہ انسانوں کا لہو بہانے کیلئے ہر طرح کی مدداور وسائل فراہم کئے جاتے ہیں اور پھرکچھ عرصہ بعد انہی دہشت گرد تنظیموں کا قلع قمع کرنے کے بہانے مسلم ملکوں میں مداخلت کر کے انہیں عدم استحکام سے دوچار کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ یہ بہت بڑی سازش ہے جو پچھلے کئی برسوں سے کی جا رہی ہے۔
پہلے نائن الیون کا ڈرامہ رچاکر حملہ آوروں کا تعلق مختلف مسلم ملکوں سے جوڑنے کی کوشش کی گئی اور پھر صلیبی ملکوں کا بڑ ااتحاد بنا کر افغانستان پر چڑھائی کر کے لاکھوں مسلمانوں کو شہید کر دیا گیا۔ عراق میں بھی یہی کھیل کھیلا گیا۔ دس لاکھ سے زائد عراقی مسلمانوں کو شہید کر کے اپنی پسند کے لوگوں کو وہاں اقتدار دلوایا اور بعد میں ٹونی بلیئر جیسے برطانوی حکمران معافیاں مانگتے نظر آتے ہیں کہ عراق پر حملہ کیلئے جو الزامات لگائے گئے تھے وہ ثابت نہیں ہو سکے اور اسی حملہ کے نتیجہ میں داعش وجود میں آئی ہے۔ پہلے نائن الیون حملہ کو بنیاد پر دو مسلم ملکوں میں خون کی ندیاں بہائی گئیں۔پاکستان میں دہشت گردی کے خوفناک سلسلے پروان چڑھائے گئے جبکہ اسی طرح داعش کے خاتمہ کے نام پر شام میں بے گناہ سنی مسلمانوں کا خون بہایا جارہا ہے۔ امریکہ کی زیر قیادت اتحادیوں کو داعش کی دہشت گردی ختم کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ مسلمانوں کو جب بھی میدانوں میں فتح حاصل ہوئی ہے ‘ کفار کی جانب سے مسلم معاشروں میں فتنہ تکفیر اور خارجیت کو پروان چڑھایا گیا۔حال ہی میں افغانستان میں اتحادیوں کو ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا تواس خطہ میں بھی داعش جیسی تنظیموں کی آبیاری کی جارہی ہے تاکہ فرقہ وارانہ قتل و غارت گری، دہشت گردی وتخریب کاری کا سلسلہ چلتا رہے اور اسلام دشمن قوتوں کے مذموم مقاصد پورے ہوتے رہیں۔اسی طرح مسلمانوں کے دینی مرکز سعودی عرب کے امن کو برباد کرنے کی بھی خوفناک سازشیں کی جا رہی ہیں۔
مدینہ میں مسجد نبوی سمیت دیگر مقامات پر خودکش حملوں کی کوششیں انہی سازشوں کا حصہ ہیں۔ ایسی صورتحال میں مسلم ممالک کے ایک بڑے اتحاد اور مسلم معاشروںمیں دہشت گردی پھیلانے والی تنظیموں کیخلاف مشترکہ طور پر عملی اقدامات کی بہت زیادہ ضرورت محسوس کی جارہی تھی۔ سعودی عرب کی زیر قیادت بننے والا فوجی اتحاد جس میں پاکستان سمیت دنیا بھر کے 34اسلامی ممالک شامل ہیں’انتہائی خوش آئند اور پوری مسلم امہ کے دل کی آواز ہے۔ پاکستان اور سعودی عرب پہلے بھی دہشت گردی کے اس فتنہ کو ختم کرنے کیلئے بھرپور انداز میں کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ پاکستان میں افواج پاکستان کے سپہ سالار جنرل راحیل شریف کی قیادت میں آپریشن ضرب عضب نے دہشت گردوں کی کمر توڑ کر رکھ دی اور بیرونی قوتوں کی مداخلت کے نیٹ ورک بکھر کر رہ گئے ہیں۔اسی طرح سعودی عرب میں بھی دہشت گردوں کی بڑی تعداد میں گرفتاریاں کی گئی ہیں اور سعودی فورسز کو اہم کامیابیاں حاصل ہور ہی ہیں۔ امام کعبہ الشیخ عبدالعزیز سمیت دنیا بھر کے علماء کرام نے مسلم ملکوں میں خود کش حملوں کو حرام قرار دیا او ر داعش جیسی تنظیموں کے نظریات کو گمراہ کن کہتے ہوئے نوجوان نسل کو ان سے بچانے کی ترغیب دی ہے۔ اس حوالہ سے یقینی طور پر نظریاتی محاذ پر بھی سرگرم کردار ادا کیا جائے گا۔

بہرحال پاکستان اور سعودی عرب کی طرف سے دہشت گردی کے خاتمہ کیلئے مشترکہ کاوشوں کے ان شاء اللہ دور رس اثرات مرتب ہوں گے۔ اسی طرح سی پیک منصوبہ میں سعودی عرب کی شمولیت کے بھی بہت زیادہ فوائد ہوں گے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ مسلم حکومتیں سنجیدگی اور ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسلامی ملکوں کے اتحاد کی کامیابی کیلئے بھرپور انداز میں کوششیں جاری رکھیں اور اس حوالہ سے کسی قسم کے بیرونی دبائو کو خاطر میں لانے کی بجائے مسلم ملکوں کے اپنے قومی مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے پالیسیاں ترتیب دی جائیں۔ اللہ تعالیٰ ان شاء اللہ آسمانوں سے رحمتیں و برکتیں نازل کرے گا اور مسلم امہ کو کامیابیوں سے نوازے گا۔




حافظ سعید کی نظر سے بلوچستان کا منظر نامہ



بلوچستان میں کیا ہو رہا ہے۔ ایک ابہام ہے۔ اگر بھارتی میڈیا کی بات مان لی جائے تو ایسا لگتا ہے کہ بلوچستان میں آگ لگی ہوئی ہے۔ اور اگر پاکستان کا میڈیا دیکھ لیں تو ایسا لگتا ہے کہ سب سکون ہے۔ کوئی بات ہی نہیں ہے۔ اسی جستجو میں گزشتہ روز جماعت الدعوۃ کے سربراہ حافظ سعید سے ملاقات ہوئی۔ ویسے تو لوگ انہیں ان کے کشمیر کے حوالہ سے سخت موقف اور کام کے حوالے سے جانتے ہیں۔ لیکن شاید کم ہی لوگ یہ بات جانتے ہو نگے کہ حافظ سعید کی این جی او فلاح انسانیت فاؤنڈیشن بلوچستان میں فلاحی کام کرنے والی سب سے بڑی این جی او ہے۔ فلا ح انسانیت فاؤنڈیشن کا کام بلوچستان کے ہر ضلع و تحصیل میں موجود ہے۔


میں نے حافظ سعید صاحب سے پوچھا کہ بلوچستان کہاں کھڑا ہے۔ کیا ہم بلوچستان میں مشرقی پاکستان والی غلطیاں کر رہے ہیں۔ کیا براہمداغ میں مجیب بننے والی صلاحیتیں ہیں۔ کیا براہمداغ کی جماعت بلوچستان کے انتخابات جیت سکتی ہے۔ حافظ سعید مسکرائے اور کہنے لگے کہ آپ نے مودی کے ایک بیان کے بعد بلوچستان کے چپے چپے میں پاکستان کے حق میں نکلنے والی ریلیاں نہیں دیکھیں۔ پوری دنیا نے دیکھا کس طرح پورا بلوچستان پاکستان زندہ باد کے نعروں سے بیک زبان گونج اٹھا۔ لوگ پاکستان کے جھنڈے اٹھا کر سڑکوں پر آگئے۔ مودی کے پتلے جلائے گئے۔


میں نے کہا یہ کہا جاتا ہے کہ یہ سب پاکستان زندہ باد کے نعرے اور پاکستان کے جھنڈوں والی ریلیاں تو آپ نے نکلوائی تھیں۔ یہ تو آپ کے لوگ تھے۔ انہوں نے کہا میں آپ کی یہ بات مان لیتا ہوں یہ پاکستان زندہ باد کی ریلیاں ہم نے نکلوائی ہیں۔ لیکن یہ بلوچ تھے۔ وہاں کے مقامی لوگ تھے۔ بلوچستان کے قصبوں اور مختلف شہروں میں ایک ہی دن میں نکلنے والی درجنوں ریلیوں کے لئے لوگ پنجاب یا سندھ سے تو نہیں گئے تھے۔ یہ بلوچ تھے۔ اور پاکستان سے اپنی محبت کا اعلان کر رہے تھے۔


انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں پانی اور اناج بڑے مسائل ہیں۔ ہم نے بلوچستان کے دور دراز علاقوں میں ٹیوب ویل لگائے ہیں اور کنویں کھودے ہیں۔جن علاقوں میں پانی کی شدید قلت تھی وہاں پانی دیا ہے۔ پانی نے ان کی زندگی میں بڑی تبدیلی لا دی ہے۔ وہ یہ بات مانتے ہیں کہ یہ پانی انہیں نہ تو کسی سردار نے دیا ہے اور نہ ہی کسی بھارتی ایجنٹ نے دیا ہے۔ سب نے انہیں اپنے اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرنے کی کوشش کی ہے۔ صرف فلا ح انسانیت فاؤنڈیشن نے ان کے لئے کام کیا ہے۔ ان کے صدیوں کا مسئلہ کا حل کیا ہے۔ ہم نے انہیں پنجاب سے اناج چاول اور دیگر اجناس دی ہیں ۔ اور انہیں بتا یا ہے کہ یہ اجناس اناج اور چاول ان کے لئے ان کے پنجابی بھائیوں نے بھیجی ہیں۔ اس طرح ہم نے ان کے اندر پنجاب اور دیگر پاکستان کے علاقوں کے لئے محبت مضبوط کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ مجھے فخر ہے کہ میں نے یہ کام کیا ہے۔ اسی طرح بلوچستان کے علاقے آواران میں آنے والے زلزلے کے حوالے سے بھی حافظ سعید کا کہنا تھا کہ اس زلزلہ میں ان کی جماعت نے ریلیف کا ریکارڈ کام کیا ہے۔ کئی نئے گاؤں بنائے ہیں۔ ان کی تنظیم فلاح انسانیت فاؤنڈیشن مشکل کی اس گھڑی میں بلوچ عوام کے ساتھ کھڑی ہوئی ہے۔ اور اس کام کی وجہ سے بلوچ عوام نے ہمیں اپنے دل میں جگہ دی ہے۔ جس پر مجھے فخر ہے۔


میں نے کہا کہ کہا جاتا ہے کہ را بلوچستان میں بہت پیسہ خرچ کر رہی ہے۔ جب ہندوستان وہاں اتنے پیسے خرچ کر رہا ہے تو آپ بلوچستان میں امن کا پیغام کیسے دے سکتے ہیں۔ انہوں نے کہاآپ مانیں یا نہ مانیں لیکن کلبھوشن کے پکڑے جانے کے بعد بھارت کا بلوچستان میں نیٹ ورک ٹوٹ گیا ہے اور ہمارے اداروں کی یہ اب تک کی بڑی کامیابی ہے کہ انہوں نے بھارت کو بلوچستان میں دوبارہ نیٹ ورک بنانے نہیں دیا۔ بھارت کی بد حواسی یہی ہے کہ اب اس کے بلوچستان میں پاؤں نہیں لگ رہے۔ وہ جو باہر بیٹھے خود کو بلوچستان کا ٹھیکیدار ظاہر کرتے ہیں ۔حقیقت میں ان کا بلوچستان سے رابطہ ختم ہو گیا ہے۔ لوگ ان کو جان چکے ہیں۔ اور ان سے دور ہو گئے ہیں۔ اسی لئے اب ان کی آواز پر بلوچستان میں نہ تو کوئی ہڑتال ہوتی ہے۔ اور نہ ہی ان کے کہنے پر کوئی پاکستان مخالف ریلی نکالتا ہے۔ بلوچستان نے ان کو عاق کر دیا ہے۔ یہ لوگ اب بھارت کے لئے بھی بوجھ ہیں۔ کیونکہ وہ بھارت کے مذموم مقاصد کی تکمیل کے بھی قابل نہیں رہے ہیں۔


حافظ سعید بلوچستان کی جو تصویر پیش کر رہے ہیں ۔ اللہ کرے وہ سچ ہو۔ ابھی حالات اس قابل تو نہیں کہ میں حافظ سعید سے اپنی اس خواہش کا اظہار کرتا کہ مجھے بلوچستان لے چلیں۔ لیکن میری دعا ہے کہ بلوچستان کے حالات اس قدر اچھے ہو جائیں کہ ہم اپنے بچوں کو زیارت لیکر جا سکیں۔ بے شک بلوچستان پاکستان کا فخر ہے۔ لیکن حکمرانوں کو چاہئے کہ وہ بلوچستان پر توجہ دیں۔ ہمیں ہنگامی بنیادوں پر بلوچستان کی محرومیوں کو ختم کرنا ہے۔ پانی کی کمی کو دور کرنا ہے۔مجھے حافظ سعید سے بلوچستان کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے یہ خیال آیا کہ اللہ نے اہل پنجاب کو بہت دیا ہے۔ اگر ہم پنجاب میں بلوچستان میں ٹیوب ویل اور کنویں کھودنے کی ایک بڑی مہم شروع کریں۔ اور ہزاروں ٹیوب ویل لگائیں تو شاید پنجاب کے عوام بلوچ عوام کے دل میں جگہ بنا سکے۔ جس طرح حافظ سعید کشمیر کا مقدمہ لڑتے ہیں۔ اب انہیں بلوچ عوام کا مقدمہ بھی اتنی ہی شدت سے لڑنا چاہئے۔ اگر بلوچ ان سے پیار کرتے ہیں تو انہیں بھی اس پیار کو لوٹانا ہے۔ اور اس کے لئے انہیں پنجاب کو بیدار کرنا ہو گا۔ یہی وقت کی ضرورت ہے۔

No comments:

Post a Comment